گ جائیں تو سمجھ لینا قوم تنزلی کا شکار ہو چکی ہے،رہنماؤں کو تو چاہیے اس بے

حیائی والے ایپلیکشن کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے تھا، جمعہ کے خطابات میں اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے تھی، مگر اب تو ڈاکٹر ہی بیمار ہونے لگے ہیں تو قوم مسلم کا علاج کیسے کریں گے،
.
اگر اب بھی نہ سنبھلیں تو وہ دن دور نہیں جب ہماری بچیاں ٹک ٹوک پر بغیر کپڑے کے برہنہ ناچ دیکھائیں، اور اس بات پر یہود جشن منائیں، ہماری غیرت کو کیا ہو گیا، کس حد تک ہم بے شرم ہوگئے، کہ ہم نے اپنی بچیوں کے ہاتھ میں موبائل تھما دیا جس سے وہ اپنی خواہشات بند کمرے میں مٹا رہی ہیں،
ابھی بچے بالغ نہیں ہوتے مگر وہ سیکس کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مشت زنی کرکے بالغ ہوتے ہیں، اغلام بازی کرتے ہیں، کتوں بکریوں اور جانوروں کے ساتھ اپنی پیاسیں بجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں، آپ روزانہ اخبارات کا جائزہ لیں تو پتہ چلےگا، کہ ہمارے معاشرے میں ہوکیا رہا ہے، اور کیوں ہو رہا ہے، خدارا👏 اپنے بچوں پر رحم کریں، اور جہنم کی آگ سے بچائیں
اپنے بچوں پر گہری نظر رکھیں،
.
ہماری قوم کو ہمارے نبی پاک کی سیرت پسند نہیں، ہماری قوم کی بچیوں کو پردہ پسند نہیں، ہمارے مسلم لڑکوں کو چہرے پر داڑھی رکھنا پسند نہیں، ہاں اگر پسند ہے تو یہودی اسٹائل میں رکھے جانے والے بال پسند ہے، یہودی لوگ اگر اپنے چہرے پر داڑھی کو فیشن بناکر رکھتے ہیں تو ہمارا جوان اسی کی طرح اپنے چہرے پر داڑھی رکھتا ہے، جیسے وہ کپڑے پہنتا ہے ہمارا جوان ان کی اسٹائل والا لباس پہنتا ہے، ہماری بچیوں کو نقاب پسند نہیں، وہ نقاب و پردے کو دقیانوسی خیال کرتے ہیں وہ اگر کوئی یہودی لڑکی تنگ و چست لباس پہنتی ہے تو ہماری بچیاں اس کی طرح کا لباس خرید کر پہنتی ہے، مردوں کی طرح بال کٹواتی ہے، مردوں کے لباس پہنتی ہیں،، یہاں تک کے اگر یہودی لڑکیاں چڈی بنیان پہنتی ہیں تو ہماری بچیاں بھی اپنا جسم کھول کر لوگوں کو دیکھاتی ہوئی نظر آتی ہیں، کس منہ سے ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، ہم کون سا کام اسلام والا کرتے ہیں، ہم کس منہ سے کہیں ہم کنیز فاطمہ ہیں، غلام مصطفی و غلام حسین ہیں، ہم خود ذلت و رسوائی والے کام کر رہے ہیں، یہ سب قیامت کی نشانیاں ہیں جو وجود میں آرہی ہیں، جو بچ گیا وہ امن پاگیا.. اپنے گھر والوں کی حفاظت کیجیے، اور سیرت مصطفی پر چلنے کا عادی بنا دیجیے، ان شاء اللہ وہ کبھی نہیں بھٹکےگا...
ہمیں کرنی ہے شہنشاہ بطحا کی رضا جوئی
وہ اپنے ہوگئے تو رحمتِ پروردگار اپنی

📚📚

أمام غزالی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیطان ہمارا ایسا دشمن ہے جو کبھی رشوت قبول نہیں کرتا باقی دشمن ایسے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی ہدیہ یا تحفہ اور رشوت دے تو وہ۔نرم پڑ جاتا ہے اور مخالفت چھوڑ دیں گے اور اگر خوشامد کی۔جائے تو اسے بھی وہ مان جائیں گے۔۔ مگر شیطان وہ دشمن ہے جو نہ رشوت قبول کرتا ہے اور نہ خوشامد قبول کرتا ہے۔۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہم ایک دن بیٹھ کہ اس کی خوشامد کر لیں گے یہ ہماری جان چھوڑ جائے گا۔۔ ہر گز نہیں چھوڑے گا کیونکہ یہ ایمان کا ڈاکو ہے اور اس کی ہر وقت اس بات پر نظر ہے کہ میں کسی طرح انسان کو ایمان سے محروم کر لوں۔۔۔!!
🔹🔸🔹🔸🔹🔸🔹

Comments

Be the first to add a comment